مولوی سلام اللہ محدث رام پوری رحمہ اللہ

مولوی سلام اللہ محدث رام پوری رحمہ اللہ

مولوی سلام اللہ بن شیخ الاسلام محمد بن عبد الصمد فخر الدین رحمہ اللہ تعالی حضرت عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد امجاد سے ہیں۔
یہ خاندان علمی اعتبار سے ہمیشہ معروف و مشہور رہا ہے خاص کر علم حدیث میں اپنی خدمات کی وجہ سے دنیا بھر میں خاصی شہرت کا مالک ہے۔
آپ ایک عظیم مفسر،محدث اور فقیہ تھے تمام علوم پر دسترس رکھتے تھے۔
صاحبِ تذکرہ کاملان رام پور لکھتے ہیں:
" آپ کو جملہ علوم سے مناسبت تام تھی، اور تمام کتب غیر درسیہ پر مثل کتب درسیہ کے قادر تھے۔علوم معقول،حدیث،رجال،تاریخ،لغت اور ادب سب میں کامل تھے۔اور عربی زبان میں مطالب علمیہ لکھنے میں ید طولی تھا "۔ (تذکرہ کاملان رام پور ، ص:189)
صاحب حدائق الحنفیہ لکھتے ہیں:
"" آپ فقیہ فاضل،محدث کامل،مفسر متبحر،علامۂ عصر،محقق اور مدقق تھے "" (حدائق الحنفیہ ص:485)

آپ کا تعلق ایک علم پرور گھرانے سے تھا ابتدا ہی سے علمی مجالس و محافل سے سابقہ پڑتا رہا اس لیے آپ شروع ہی سے اسی ماحول میں ڈھلتے چلے گئے۔
آپ نے علومِ مروجہ اپنے والد ماجد سے حاصل کیے ۔ انہیں سے اور دیگر فضلاے عصر سے حدیث کی سند و اجازت بھی حاصل کی۔

آپ کے والد ماجد اور دادا دونوں ہی عظیم محدث و مفسر،مصنف اور فقیہ تھے۔
والد ماجد اور دادا دونوں نے کئی کتابیں تحریر فرمائی۔
آپ کے والد کی تصانیف میں فارسی میں شرح صحیح بخاری ،رسالہ طرد الاوہام عن اثر الامام الھمام اور کشف الغطاء عما لزم للموتی علی الحیاء ہیں۔
(تذکرہ علمائے ہند ، ص:218)
دادا فخر الدین رحمہ اللہ کے حوالے سے مصنف حدائق الحنفیہ لکھتے ہیں:
"" آپ کے جد امجد حافظ فخر الدین رحمہ اللہ بھی بڑے فاضل اور عالم اجل اور سچ مچ کے فخر الدین و الدنیا تھے۔جن کی تصنیفات سے فارسی شرح صحیح مسلم،فارسی شرح عین العلم اور شرح حصن حصین یادگار ہیں۔ (ص:486)

غرض یہ کہ علم و دانائی میں آپ کا خاندان معروف و مشہور اور طالبان علوم کے لیے مرجع و مصدر کی حیثیت رکھتا تھا۔
آپ نے بھی انہیں نابغۂ روزگار ہستیوں کے خرمن سے خوشہ چینی کی تھی۔
تحصیل علوم سے فراغت کے بعد آپ درس و تدریس کی مسند پر متمکن ہوئے اور تشنگان علوم کی علمی تشنگی بجھانے لگے۔
صاحب تذکرہ علمائے ہند لکھتے ہیں :
" آپ تحصیل علوم کے بعد اپنے بزرگوں کی طرح مسند افادہ و افاضہ پر متمکن ہوئے اور علوم کی اشاعت میں کوشش کرتے رہے"۔ ‌‌(ص:218)

تصانیف: آپ کی تصانیف کےمتعلق صاحب حدائق الحنفیہ اور صاحب تذکرہ علمائے ہند لکھتے ہیں:
 تصنیفات میں کمالین حاشیہ تفسیر جلالین، محلی شرح مؤطا للامام مالک ، اس کو آپ نے 1215ھ میں تصنیف کیا جس کی تاریخ" ھو الفوز الکبیر"سے نکلتی ہے،صحیح بخاری کا فارسی میں ترجمہ، (لیکن صاحب تذکرہ علماے اہل سنت محمود احمد قادری نے بخاری کے فارسی ترجمہ کی جگہ فارسی شرح کا ذکر کیا ہے۔۔۔۔۔دیکھیں تذکرہ علماے اہل سنت،ص:103)،شمائل ترمذی کا فارسی میں ترجمہ (یہاں پر بھی ترجمہ کی جگہ شرح کا ذکر کیا گیا ہے) اور رسالہ أصول حدیث عربی میں آپ کی یادگار ہیں"۔
مذکورہ دونوں مصنف اور صاحب تذکرہ کاملان رام پور نے آپ کی تصانیف میں بس یہی شمار کرائ ہیں لیکن تذکرہ علمائے ہند کے محشی نے نزھۃ الخواطر جلد ہشتم وغیرہ کتب کے حوالہ سے خلاصۃ المناقب اور رسالہ فی الاشارۃ بالسبابہ عند التشھد فی الصلاۃ کو بھی آپ کی تصانیف میں شمار کرایا ہے۔

یہ علم و حکمت کا سورج جمادی الثانی بوقت شام 1229ھ یا 1233ھ مطابق 1814ء یا 18-1817ء کو غروب ہوگیا۔
زبدۃ الاولیاء شاہ عبداللہ بغدادی قدس سرہ کی درگاہ کے احاطہ میں مسجد کے قریب جانب جنوب دفن ہوئے۔۔ (تذکرہ علماے اہل سنت،ص:103)

محمد توقیر خان مصباحی
15-11-2021

Comments

Popular posts from this blog

امام ‏اعظم ‏ابو ‏حنیفہ ‏رضی ‏اللہ ‏عنہ ‏اور ‏صحابہ ‏کرام ‏سے ‏احادیث ‏کی ‏روایت۔۔۔۔

علاقائی زبان کا بدلاؤ قسط سوم۔۔۔۔لسی

مفتی شرف الدین رام پوری رحمہ اللہ تعالی