مفتی شرف الدین رام پوری رحمہ اللہ تعالی
3
مفتی شرف الدین رام پوری علیہ الرحمہ
مفتی شرف الدین رحمہ اللہ علوی سید تھے ، آپ کی بود و باش پنجاب کی تھی لیکن علوم و فنون کی طلب کے شوق نے پنجاب کو خیرآباد کہنےاور رام پور کو آباد کرنے پر آمادہ کردیا۔۔
تحصیل علم میں محنت ہی کا ثمرہ تھا کہ علوم عقلیہ و نقلیہ دونوں میں مہارت شہرت کی حد تک پیدا کرلی ۔ علم و فضل کی شہرت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اکثر علماے رام پور کا علمی سلسلہ آپ پر منتہی ہوتا ہے۔
صاحبِ تذکرہ کاملان رام پور لکھتے ہیں:
" قوم سید علوی ، پنجاب کے رہنے والے تھے ، رام پور آکر علم و فضل میں وہ شہرت حاصل کی کہ علماے رام پور کا سلسلۂ علم آپ تک منتہی ہوتا ہے "۔ (ص:170)
صاحب تذکرہ علماے اہل سنت لکھتے ہیں:
" پنجاب کے رہنے والے تھے ، رام پور آکر تحصیل علم کیا ، تمام علماے رام پور کا سلسلۂ تلمذ ان پر ختم ہوتا ہے"۔ (ص:103)
اور صاحب تذکرہ علماے ہند لکھتے ہیں:
" مفتی شرف الدین رام پوری علوم فلسفہ و منطق میں مشہور تھے "۔ (ص:232)
علوم و فنون کے حصول سے فراغت کے بعد آپ مسند تدریس اور عہدہ قضا پر فائز ہوے۔
صاحب تذکرہ کاملان رام پور لکھتے ہیں:
" مولوی عبد القادر اپنے روزنامچہ میں لکھتے ہیں کہ میں نے جو کچھ پڑھا ان سے پڑھا ، اگر ان کی پوری پوری تعریف کروں تو اغراق پر لوگ محمول کریں گے ، اکثر علوم میں ید طولی ہے ، افتا میں ابویوسف زمانہ ہیں ، جو طالب علم ان کی خدمت میں جاۓ گا پھر اس کو اور جگہ لطف نہ آۓ گا"۔ (ص: 170)
اس سے جہاں علوم و فنون میں آپ کی مہارت کا اندازہ ہوتا ہے وہیں آپ کا انداز تدریس کا بھی علم ہوتا ہے کہ اگر کوئی آپ کے درس میں شامل ہوجاتا تو پھر وہ آپ ہی کا ہوجاتا اسے کسی اور کے درس میں مزہ نہیں آتا ۔
یہ نواب سید احمد خان بہادر کا زمانہ تھاابتداء نواب آپ کی بہت زیادہ عزت و توقیر کرتا تھا اور عہدہ قضا بھی آپ کے سپرد کر رکھا تھا۔ لیکن نواب نے اپنے بد اندیشوں کو پکڑنے کے لیے ایک چال چلی کہ بیماری کا بہانہ کرکے پاگلوں کی طرح حرکتیں کرنے لگا ، لوگوں نے پاگل سمجھ کر ریاست کی باگ ڈور سنبھالنے کے تعلق سے فیصلے کیے اس میں کسی طرح مفتی صاحب بھی شامل ہوگئے۔ یہ صورت حال دیکھ کر نواب نے اپنی طبیعت سنبھالی اور آگے بڑھ کر انتظام سنبھالنے والوں کے خلاف کارروائی کی جس میں مفتی صاحب بھی قید کردیے گئے۔مگر آپ کے افغانی شاگرد آپ کو وہاں سے خفیہ طریقے سے نکال کر لے گئے ۔ رام پور سے لکھنؤ اور کلکتہ کا سفر کیا ۔ نواب صاحب کے انتقال کے بعد رام پور تشریف لے آئے۔
(تذکرہ کاملان رام پور ، ص:170، اخبار الصنادید ، جلد اول ، ص: 744)
وہابیہ و غیر مقلدین کا اپنے مخالفین کو دشنام طرازی کرنا شیوہ رہا ہے ۔ صدیق حسن خاں غیر مقلد نے بھی ابجد العلوم میں مفتی صاحب کے ساتھ یہی روش اختیار کی ہے۔
صاحبِ تذکرہ کاملان رام پور لکھتے ہیں:
" صدیق حسن خاں ابجد العلوم میں لکھتا ہے " یہ شر فی الدین تھے شرف الدین نہ تھے ۔ اول الذکر نام میرے والد نے رکھا ہے۔ اور سنت رسول اللہ (ﷺ) سے سب سے زیادہ بعید مخلوق الہی میں یہ شخص تھا باوجود اس کے حواشی و شروح کتب درسیہ کے حافظ تھے اہل بدعت (اہل سنت) کی مدد اور اہل حق (غیر مقلدین) کا رد اپنی خرافات سے کیا کرتا تھا ، محب دنیا تھا "۔ (ص:171)
صاحب ابجد العلوم نے کذب بیانی سے کام لیا ہے ان تمام خرافات گا حقیقت سے ادنی سا بھی تعلق نہیں ۔ محض بغض و حسد اور مفتی صاحب کے رد غیر مقلدین نے مصنف کو اس بہتان طرازی پر آمادہ کیا ہے۔
صاحب تذکرہ اہل سنت لکھتے ہیں:
" یہ دشنام منکرین تقلید وہابیہ کے رد و مخالفت کا صلہ ہے"۔
مؤرخ نجم الغنی رام پوری اخبار الصنادید میں لکھتے ہیں:
" جو کچھ نواب صاحب نے لکھا اس خصومت کا اظہار ہے جو ان کو تمام حنفیہ کے ساتھ ہے ۔ اخونزادہ احمد خان غفلت نے مفتی صاحب کی مدح میں کہا ہے:
بسمل ہوا زاغِ جھل میانِ سوادِ شام
پھینکے جو سوۓ روم وہ تیر ِ کمانِ علم "۔
(اخبار الصنادید، جلد اول، ص:745)
تصنیفات: تصنیفات میں سراج المیزان در منطق ، شرح سلم تا لا یحد ولا یتصور ، رسالہ علم فرائض بزبان فارسی ، حل الاشکال فارسی قلمی اور بعض فتاویٰ آپ کی یادگار ہیں۔
(دیکھیں تذکرہ کاملان رام پور ، ص:171)
نجم الغنی رام پوری لکھتے ہیں:
"مفتی صاحب کی تصنیفات سے کچھ اجزاء عربی زبان میں ہیں جن میں کافیہ کے مطالب پر بحث کی ہے ، ان کو حل کیا ہے" ۔
انتقال: علم و حکمت کا یہ درخشندہ ستارہ 1268ھ کو نگاہوں سے ہمیشہ کے لیے چھپ گیا۔۔ رحمہ اللہ
(تذکرہ علماے اہل سنت، ص:103)
محمد توقیر خان مصباحی رام پوری
17-11-2021
Comments
Post a Comment