امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام سے احادیث کی روایت۔۔۔۔
قسط دوم
امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی ذات متعدد خصوصیات کی حامل ہے،ان میں سے ایک عظیم خصوصیت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بلا واسطہ احادیث سماعت کرنا ہے۔یہ ایسی خصوصیت ہے جس میں ائمۂ ثلاثہ رحمہم اللہ میں سے کوئی آپ کا شریک نہیں۔
کتنے صحابہ سے روایت کی:
اس سلسلے میں امام ابو المؤید محمد بن محمود خوارزمی رحمہ اللہ نے تین اقوال ذکر کیے ہیں۔
(1) :- 6 صحابہ ایک صحابیہ۔
(2):- 5 صحابہ ایک صحابیہ۔
(3):- 7 صحابہ ایک صحابیہ۔
قول اول:
آپ نے مندرجہ ذیل صحابہ کرام سے روایات کیں:
(1) انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بلفظ "سمعت" ۔
حدیث"قال رسول الله ﷺ: طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم"۔
(2) عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ سے بلفظ "سمعت"۔
حدیث"سمعت رسول الله ﷺ یقول :حبک الشیئ یعمی و یصم"۔ (کوفہ میں)
(3) عبداللہ بن حارث بن جزء زبیدی سے بلفظ "سمعت" ۔
حدیث"سمعت رسول الله ﷺ یقول: من تفقہ فی دین اللہ کفاہ اللہ ھمه و رزقه من حیث لا یحتسب"۔(مکہ مکرمہ مسجد حرام میں)
(4) جابر بن عبداللہ سے بلفظ "عن".
حدیث"عن جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہ قال:جاء رجل من الانصار الی النبی ﷺ فقال:یا رسول الله !مارزقت ولدا قط ولا ولد لی،قال:"فأین أنت من کثرۃ الاستغفار و کثرۃ الصدقۃ ترزق بھما الولد"قال:فکان الرجل یکثر الصدقۃ و یکثر الاستغفار قال جابر فولد له تسعۃ ذکور۔
(5) عبداللہ بن ابی اوفی سے بلفظ "سمعت"۔
حدیث"سمعت رسول الله ﷺ یقول: من بنی لله مسجدا و لو کمفحص قطاۃ بنی الله بیتا فی الجنۃ"۔
(6) واثلہ بن اسقع سے بلفظ"سمعت"۔
حدیث"سمعت رسول الله ﷺ یقول: لا تظھر شماتۃ لاخیک فیعافیه الله و یبتلیک"۔
(1)ایک صحابیہ عائشہ بنت عجرد سے بلفظ"سمعت"۔
حدیث"قال رسول الله ﷺ: اکثر جند الله فی الارض الجراد لا آکله و لا أحرمه"۔
قول ثانی:
جو 5 صحابہ اور ایک صحابیہ کا ذکر کرتے ہیں وہ جابر بن عبدالله کا نام ترک کردیتے ہیں۔اس کی دو وجہیں بیان کرتے ہیں:
(1) امام اعظم رحمہ اللہ کی سن ولادت اکثر علما کے نزدیک 80ھ ہے،اور جابر بن عبداللہ کی وفات 79ھ۔
جب امام اعظم کی ولادت جابر بن عبداللہ کی وفات کے بعد ہوی تو وہ آپ سے روایت کس طرح کر سکتے ہیں؟
(2) یہ احادیث معنعن سے ہے جس میں تدلیس کا دخل ہوتا ہے کہ راوی کا مروی عنہ سے سماع و عدم سماع دونوں کا ظن موجود ہوتا ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے تمام احادیث میں "سمعت" کہا جب کہ جابر بن عبداللہ والی حدیث میں "عن جابر" فرمایا۔جیساکہ ارسال حدیث میں تابعین رحمہم اللہ کی عادت ہے۔
قول ثالث:
جو 7 صحابہ اور ایک صحابیہ سے روایت کے قائل ہیں وہ معقل بن یسار مزنی رضی اللہ عنہ کا اضافہ کرتے ہیں۔
لیکن اس میں بھی کلام ہے،معقل بن یسار مزنی رضی اللہ عنہ کا انتقال ،معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی امارت میں ہوا،اور معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی سن وفات 60 ھ ہے۔
جب حضرت معقل رضی اللہ عنہ کی وفات امام اعظم کی ولادت سے بیس سال سے پہلے ہو چکی تھی ،تو ان سے روایت کرنا کس طرح متصور ہوسکتا ہے ؟
کچھ حضرات انس بن مالک رضی اللہ عنہ والی حدیث پر عدم سماع کا قول کرتے ہیں۔
خوارزمی رحمہ اللہ اس کا جواب دیتے ہوے تحریر فرماتے ہیں:
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے میں کوئی مانع نہیں،اگرچہ آپ کی سن وفات کے سلسلے میں 91 ، 92 ، 93 ھ تین قول ہیں،کیوں کہ 91 ھ والے قول کو لیں پھر بھی آپ کی عمر بالاتفاق 10 سال سے زیادہ ہورہی ہے ۔اور دس سال کی عمر میں سماعت کرنے میں کوئی استحالہ نہیں ہے۔مزید یہ کہ اس سلسلے میں روایات مشہور و معروف ہیں۔
جب کہ ایک روایت کے مطابق امام اعظم کی ولادت 60 ھ میں ہوئی اگر اس قول کو لے لیا جائے تو آپ کی عمر 30 سال سے زیادہ ہورہی ہے۔
(جامع مسانید الامام الاعظم،المجلد الأول،جمعہ: الامام المؤید محمد بن محمود الخوارزمی593__665ھ،الباب الأول فی فضائله التی تفرد،النوع الثالث فی انه روی عن اصحاب رسول ﷺ ، مفھوما)
ان تینوں اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ اور حضرت معقل بن یسار مزنی رضی اللہ عنھما سے روایت کرنے میں اختلاف ہے باقی پانچ صحابہ اور ایک صحابیہ رضی اللہ عنھم پر سب کا اتفاق ہے۔
یہ وہ امتیاز ہے جس نے امام اعظم کی شخصیت میں چار چاند لگا دییے ہیں۔
روى البخاري (2652) ، ومسلم (2533) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بن مسعود رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ( خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ الحدیث ) .
سب سے بہترین لوگ وہ ہیں جو میرے زمانے کے ہیں، پھر وہ جو ان کے قریب ہوں ، پھر وہ جو ان کے قریب ہوں۔
امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں فرمایا:"پہلے والے "ثم الذین یلونھم" سے مراد تابعین ہیں "۔
امام اعظم بھی تابعی ہیں
خیرالناس کے مژدۂ جاں فزا میں آپ بھی داخل ہیں۔
واہ میرے امام!!! خدا نے تجھے کیا عظمت و رفعت عطا کی ہے۔
✍️ محمد توقیر مصباحی 17/07/2020
Comments
Post a Comment