صدر الافاضل کی دور اندیشی اور ہم‏

افسوس ! ہندو اکثریت جو مسلمانوں کو نیست و نابود کر ڈالنے کا عزم بالجزم کر چکی ہے وہ مسلمانوں کو اس وقت اپنے مشاغل طاعات و بندگی میں نہایت مصروف دیکھ کر موقع سمجھتی ہے کہ ان پر حملہ کرے اور انہیں جانی ، مالی ہر طرح کے نقصان پہنچائے___

 مسلمان کتنا بھی امن و عافیت کا لحاظ رکھیں مگر سنگدل ، جفا کار ان کی امن پسندی سے غلط فائدے اٹھاتے ہیں اور ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالتے ہیں___

 ان کی منتظم جماعتیں پہلے سے آمادۂ جنگ ، موقع کی منتظر ہوتی ہیں ، وہ ایک دم مسلمانوں پر بلائے بے درمان کی طرح ٹوٹ پڑتی ہیں___

ایک جماعت حکام کے پاس دوڑ جاتی ہے__وہ مظلوم مسلمانوں کو ظالم و فتنہ انگیز بتا کر انہیں قانونی شکنجے میں کسنے کی تدبیریں کرتی ہے__

نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مسلمان ہی پٹتے ہیں ، اور مسلمان ہی مارے جاتے ہیں ، مسلمان ہی لٹتے ہیں ، مسلمانوں ہی کے گھر اور مسجدیں جلائی جاتی ہیں ، اور مسلمان ہی ماخوذ ہوتے ہیں ، وہی گرفتار کیے جاتے ہیں ، انہیں کو لمبی لمبی سزائیں ہوتی ہیں___

(مقالات صدر الافاضل،ص:286
ترتیب و تحقیق: محمد ذوالفقار خان نعیمی ککرالوی)

صدر الافاضل علیہ الرحمہ کی اس تحریر کو پڑھ کر بالکل محسوس نہیں ہوتا کہ ہم کسی مفکر کی سو سالہ پرانی تحریر پڑھ رہے ہیں ، بل کہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی ہمارے ہی زمانے کا مفکر موجودہ زمانے میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و جور پر اپنے درد و کرب کا اظہار کرکے درپیش خطرات سے بچانے کی انتھک کوشش کررہا ہے__

افسوس ہے مسلمانوں پر کہ سو سال میں بھی اپنی حالت میں سدھار نہ لاپاۓ___ سدھار تو کجا ذلت و رسوائی کے قعر عمیق و تاریک میں ایسے گرے کہ گرتے ہی چلے گئے___

آج بھی ہر طرف مسلمانوں پر ظلم و ستم اور تشدد و تعدی کے پہاڑ ڈھاۓ جارہے ہیں،قتل و غارت گری کے بازار گرم کیے جارہے ہیں۔کہیں دنگے کی صورت مت اجتماعی خونریزی کی جارہی ہے،کہیں گاؤ رکشا کے بہانے موب لنچگ کرکے نہتے ، بے بس اور اکیلے شخص کو موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے،کہیں مقدس مقامات و شخصیات کی توہین کرکے دل آزاری کی جارہی ہے تو کہیں مساجد کا انہدام کیا جارہا ہے۔غرض طرح طرح سے ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے___

کاش عوام علماء کو اپنا پیشوا مانتی ، ان کو پڑھتی ، سمجھتی ، بتاۓ ہوۓ سجھاؤ پر عمل کرتی ، تنبیہات پر توجہ دیتی تو شاید آج حالات ایسے نہ ہوتے جیسے ہیں___

 برا ہو لبرلزم و سیکورلزم کا جس نے حریت و آزادی کے نام پر عوام کے دلوں میں علماء کی عداوت و دشمنی کا بیج بویا جو آج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ایک ایسے مہلک و نفرت انگیز شجر کی صورت میں سامنے موجود ہے جس کی پرورش میں نہ تو کوئی کمی ہوتی نظر آ رہی ہے نہ ہی کسی مرض میں ابتلا کا وہم___

ایسا لگتا ہے کہ جیسے تنزل و انحطاط اور ہندی مسلمانوں کا دامن چولی کا سا رشتہ ہوگیا ہے___

اب ضروری ہے کہ ہم ماضی کی ‌ غلطیوں کوتاہیوں کو بھلا کر سنبھل نے کی کوشش کریں،مستقبل کی تعمیر و ترقی میں پوری تن دہی کے ساتھ مشغول ہوجائیں اگر اب بھی ہم سنبھل جائیں اور سر جوڑ کر مستقبل کا لائحہ عمل طے کر لیں تو بھی ممکن ہے آگے چل کر ہم کچھ بہتر حالت میں رہیں___

حکومتی عہدوں یعنی سول سروسز، آرمی، پولس، پی ایس سی اور گورنمنٹ کے ہر شعبے میں ہمیں اپنی تعداد بڑھانی ہوگی تاکہ ہر محاذ پر ہم خود مختار ہو جائیں اور دربدر کی ٹھوکریں کھانے سے بچ جائیں__

اللہ رب العزت امت مسلمہ مرحومہ پر اپنا رحم فرمائے___
آمین بجاہ النبی الامین ﷺ__

تحریر: توقیر خان مصباحی

Comments

Popular posts from this blog

امام ‏اعظم ‏ابو ‏حنیفہ ‏رضی ‏اللہ ‏عنہ ‏اور ‏صحابہ ‏کرام ‏سے ‏احادیث ‏کی ‏روایت۔۔۔۔

علاقائی زبان کا بدلاؤ قسط سوم۔۔۔۔لسی

مفتی شرف الدین رام پوری رحمہ اللہ تعالی